گزشتہ کچھ عرصے میں انسان کو اظہار رائے کی آزادی اور مواقع ملنے سے جہاں جذبات کے اظہار کے انداز بدلے ہیں اور سوچنے اور سمجھنے کے زاویوں میں جدت آئی ہے وہیں پر یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ بعض لوگ آزاد ہونے اور بے لگام ہونے کا فرق شاید ابھی تک نہیں سمجھے، ویسے بھی جب سے انسان نے زیادہ بولنا شروع کیا ہے، سننے والے کم پڑ گئے ہیں جبکہ برداشت کا مادہ توپہلے سے بھی کم ہوتا جا رہا ہے ،اگرمیڈیا اور سوشل میڈیا پر ہونیوالے مباحثوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یقیناًپڑھے لکھے لوگوں کی گفتگو اور انداز بیاں آپ کو یہ سوچنے پہ مجبور کر دے گا کہ اتنی تعلیم اور شعور کے بعد انسان کا یہ حال ہے تو زمانہ جاہلیت کیسا ہوتا ہو گا۔۔۔حالیہ کچھ عرصے میں جہاں اور بہت سی چیزوں کو تنقید کا نشانہ بنانا فیشن بن گیا ہے وہیں مردوں کو کسی بھی چیز کا ذمہ دار قرار دینا لبرل اور پڑھے لکھے ہونے کی دلیل سمجھا جانے لگا ہے اور کسی بھی فورم پہ کسی بھی موضوع پہ بات ہو رہی ہو مرد کو ہر قسم کی خرابی کا ذمہ دار قرار دینے میں کوئی نہیں ہچکچاتا، لیکن یہ آدھی کہانی ہے اور باقی آدھی ہمارے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہم سے اوجھل ہے۔
میرے پیا گئے رنگون۔۔۔۔
ہمارے ارد گرد ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کے ابو، چاچو ، بھائی، ماموں ،برسوں سے پردیس میں ملازمتیں کر رہے ہیں ، یہاں بڑے فخر سے برانڈڈ چیزیں پہننے والوں نے کبھی اس بات پہ غور کیا ہے کہ انکی زندگیوں میں خوشیوں کے رنگ بھرنے والے خود اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پرائے دیسوں میں اجنبیوں کیساتھ گزارتے ہیں، خوشی ، غمی کے مواقع، تہوار ، سب کام کرتے ہوئے گزارنے والے ان مردوں کے کتنے خواب ،خواہشیں اور ارمان قربانی کی بھینٹ چڑھتے ہیں انکا ذکر کوئی نہیں کرتا
مسافرہوں یارو ! نہ گھر ہے نہ کوئی ٹھکانہ۔۔۔۔
اپنوں کی خوشیوں کیلئے ملک سے باہر رہنے والوں کو تو پھر بھی کبھی کبھار کچھ پروٹوکول مل جاتا ہے لیکن اپنے ہی ملک میں مسافروں کی سی زندگی گزارنے والے ہزاروں مرد وں کو تو عام انسان جیسا مقام بھی نہیں ملتا، کبھی ہم نے بس، ٹرین اور ٹرک ڈرائیوروں کے بارے میں سوچنے کی زحمت کی ہے ،ہر صبح اگر ہمیں دکانوں، بازاروں سے تمام چیزیں آسانی سے مل جاتی ہیں تو اسکی و جہ یہی ہے کہ یہ چیزیں مسلسل دنیا بھر سے آپکے علاقوں میں پہنچائی جا رہی ہیں ، اور اگر آپ نے موت کی انگلی پکڑ کر بھی کسی کو ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھنا ہے تو کشمیر، شمالی علاقہ جات یا بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں چلنے والے ٹرکوں کو ایک مرتبہ دیکھ لیں ، جہاں سے آپکو سائیکل پر جاتے ہوئے بھی ڈر لگے گا وہاں وہ بے خوف 20 ویلرٹرک لیکر گزر جاتے ہیں۔۔۔۔
مرد کو درد نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
بچپن سے لڑکوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ وہ زندگی کے کسی مقام پر کمزور نہیں پڑ سکتے، وہ نہ رو سکتے ہیں نہ کسی سے درد بانٹ سکتے ہیں،ظلم سہنا جیسے انکا مقدر ہو، جذبات کا اظہار انسان کی بنیادی ضرورت ہے لیکن باپ، بھائی،بیٹا اور شوہر کے کرداروں میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کہ آپ کسی بھی مقام پر کوئی بھی شکوہ کریں،گویا درد بھی اٹھانے ہیں اور آہ کی بھی اجازت نہیں ۔
تاریخ تو مردنے لکھی ہے ۔۔۔۔
آج کل جس نے چار کتابیں پڑھ لی ہیں وہ کسی بھی موقع پہ بحث کرتے ہوئے یہ بات ایک مرتبہ تو ضرور کرتا ہے بالخصوص پڑھی لکھی خواتین ، اوریہ کہتے ہوئے انکا انداز ایسا ہوتا ہے کہ جیسے مردوں نے یہ تاریخ عورتوں کی گود میں بیٹھ کر سرخ انگوروں کی شراب پیتے پیتے لکھی ہے ، اب بندہ ان سے پوچھے کہ جس تاریخ کو آپ ایک ہی لمحے میں آلودہ اور جھوٹا قرار دے دیتے ہیں ،اس میں ایسی سینکڑوں داستانیں موجود ہیں جو مردوں نے اپنے لہو سے رقم کی ہیں ، ابن الحیثم نے جیل کاٹی، سقراط نے زہر کا پیالہ پیا، برونو سمیت متعدد سائنسدان قتل کئے گئے ، ابن بطوطہ اور مارکوپولو نے پوری زندگی سفر میں گزار دی، جس تاریخ کا تمسخر اڑایا جاتا ہے ، آج کی یہ ترقی اسی کی مرہون منت ہے۔۔۔
شہزادی دیو اور شہزادہ۔۔۔۔۔
کہانی سننا اور سنانا انسان کا انتہائی پرانا مشغلہ ہے ، ماضی میں لکھی گئی بیشتر کہانیوں میں کسی نہ کسی شہزادی کو کسی دیو، چڑیل جن یا شیطان نے قید کیا ہوتا تھا اور پھر کوئی شہزادہ اپنی زندگی پر کھیل کر اسکو بچاتا تھا، سب کو دیو، جن اور شیطان تو یاد رہ جاتے ہیں لیکن اس شہزادے کی بات کوئی نہیں کرتا۔۔۔۔
مرد ایک درندہ ہے۔۔۔۔۔۔
دنیا میں کہیں بھی کسی عورت کے ساتھ کوئی ظلم ہو جائے تو اسکا الزام ساری دنیا کے مردوں پہ ڈال دیا جاتا ہے ، اور ایسے مظالم کو مردوں کی فطرت قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ آپ نے اپنی زندگی میں شاید ہی کوئی ریپسٹ ، قاتل، یا تیزاب پھینکنے والا انسان خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو لیکن پھر بھی ان چند برے مردوں کے جرائم کو دنیا بھرکے مردوں پر عائد کر دیا جائے گا جب کہ آپ ایسے مرد روزانہ دیکھتے ہیں جن کے شب و روز ، ہوٹلوں، پٹرول پمپوں، فیکٹریوں اور کھیتوں میں کام کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں لیکن آپ
کو کبھی یہ مرد نظر نہیں آتے نہ کبھی کسی نے انہیں سراہنے کی زحمت کی ہے۔۔۔۔
شہید یا غازی۔۔۔۔صرف مرد کی ذمہ داری۔۔
ہر انسان میں جینے کی اور اچھی زندگی گزارنے کی خواہش ہوتی ہے اورہماری اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے صدیوں سے مرداپنی زندگیاں قربان کرتے آئے ہیں، کبھی کسی نے سوچا ہے کہ بارڈر پر کھڑے سپاہیوں کا وقت کیسے گزرتا ہے، کبھی ویران پہاڑوں میں قائم چوکیوں میں مہینوں تنہائی اور کٹھن حالات کوجھیلنے والے کسی شخص کی کہانی ہماری گفتگو کا حصہ کیوں نہیں بنی۔۔۔۔
ساس بہو کے جھگڑے،کبھی داماد اورسسر لڑے ہیں؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ کہ ہمارے ہاں خواتین کی بڑی تعداد گھروں پر تشدد اور دیگر ناانصافیوں کا نشانہ بنتی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عورتوں کیساتھ مظالم میں مرد تو صرف فرنٹ مین ہوتے ہیں جبکہ ان ساری کارروائیوں کے پیچھے تو خود عورتیں ہی ہوتی ہیں ، مردوں کو عورت پر ظلم کیلئے اکسانے والی زیادہ ترخواتین ہی ہوتی ہیں، مرد کی ساری زندگی تو ماں اوربیوی کے درمیان سینڈوچ بنے گزر جاتی ہے ،دنیا بھر میں ساس بہو کہ جھگڑے ہوتے ہیں کبھی آپ نے داماد سسر کے جھگڑے سنے ہیں ؟
باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن کما تے کتنا ہو ۔۔۔
خواتین کیساتھ سب سے بڑی ناانصافی یہ ہے کہ انہیں صرف حسن کے معیار پہ پرکھا جائے، اور ایسا صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے ، جسکی مذمت بھی ہوتی ہے اور تنقید بھی لیکن کبھی کوئی اس نکتے پہ بات کیوں نہیں کرتا کہ مرد کو ساری زندگی پیسے کے ترازو میں کیوں تولا جاتا ہے، کوئی مرد کتنی ہی خوبیوں کا حامل کیوں نہ ہو اس سے پہلا اور آخری سوال تویہی ہوتا ہے کہ کتنا کما لیتے ہو۔۔۔کیا مرد وں کو جانچنے پرکھنے کا یہی ایک سب سے مستند معیار ہے۔۔۔۔